News Details
15/04/2025
وفاق سے جڑے خیبر پختونخوا کے مالی معاملات کے حل کی طرف پیشرفت کے لئے وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی زیر صدارت متعلقہ وفاقی اور صوبائی حکام کی ایک اہم نشست پیر کے روز اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔
وفاق سے جڑے خیبر پختونخوا کے مالی معاملات کے حل کی طرف پیشرفت کے لئے وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی زیر صدارت متعلقہ وفاقی اور صوبائی حکام کی ایک اہم نشست پیر کے روز اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔ وفاقی وزیر برائے خزانہ محمد اورنگزیب اور وفاقی وزیر برائے آبی وسائل محمد معین وٹو کے علاوہ متعلقہ وفاقی سیکرٹریز نے شرکت کی۔ صوبائی حکومت کی طرف سے وزیر اعلی کے مشیر برائے خزانہ مزمل اسلم، وزیر اعلی کے معاون خصوصی برائے طارق سدوزئی چیف سیکریٹری شہاب علی شاہ اور متعلقہ انتظامی سیکرٹریز نے شرکت کی۔ اس موقع پر پن بجلی کے خالص منافع کی مد میں وفاق کے ذمے صوبے کے بقایاجات، نئے این ایف سی ایوارڈ اور ضم اضلاع کے ترقیاتی فنڈز کی فراہمی سے جڑے حل طلب معاملات پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔ صوبائی حکومت کے حکام کی طرف سے اجلاس کے شراکائ کو مذکورہ معاملات پر بریفنگ دی گئی ان معاملات پر صوبائی حکومت کا موقف مدلل انداز میں پیش کیا گیا۔ اجلاس میں شرک وفاقی حکومت کے حکام نے ان معاملات پر صوبائی حکومت کے موقف سے اصولی اتفاق کرتے ہوئے ان معاملات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے لئے وفاقی سطح پر کوششیں کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ شراکاءکو بتایا گیا کہ پن بجلی کے خالص منافع کی مد میں وفاق کے ذمے صوبے کے 1900 ارب روپے کے بقایاجات ہیں جبکہ پن بجلی کے منافع کی ادائیگیوں کے عبوری طریقہ کار کے تحت بھی وفاق کے ذمے 77 ارب روپے واجب الادا ہیں۔ صوبائی حکومت چاہتی ہے کہ ان ادائیگیوں کے طریقہ کار کے لئے اوٹ آف دی باکس کمیٹی کا اجلاس جلد بلایا جائے اور اس کمیٹی کی سفارشات کو حتمی فیصلے کے لئے جلد سی سی آئی کے اجلاس میں پیش کیا جائے جس کے لئے وزیر اعلی خیبر پختونخوا پہلے ہی وزیر اعظم کو مراسلہ ارسال کرچکے ہیں۔ سابقہ قبائلی علاقوں کے فنڈز کے حوالے سے بتایا گیا کہ ان علاقوں کا صوبے کے ساتھ انتظامی انضمام تو ہوگیا لیکن مالی انضمام ابھی تک نہیں ہوا، قبائلی علاقوں کے انضمام سے صوبے کی آبادی مجموعی ملکی آبادی کے 14.7 فیصد سے بڑھ کر 17.7 فیصد ہوگئی اور آبادی کے تناسب سے این ایف سی میں صوبے کا حصہ 14.2 فیصد سے بڑھ کر 19.46 ہوگیا ہے، اس حساب سے صوبے کو این ایف سی میں سالانہ 350 ارب روپے ملنے ہیں، اس سلسلے وفاقی حکومت جلد سے جلد موجودہ این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کے لئے متعلقہ فورم کا اجلاس بلائے۔ صوبائی حکام کی طرف سے مزید بتایا گیا کہ اس وقت ضم اضلاع کے اخراجات جاریہ بھی وفاقی حکومت کے ذمے ہیں، رواں مالی سال کے لئے ضم اضلاع کے اخراجات جاریہ کا حجم 127 ارب روپے ہے جس کے مقابلے میں وفاقی حکومت نے صرف 66 ارب روپے مختص کئے ہیں اور یہ باقی خسارہ صوبائی حکومت اپنے وسائل سے پوری کر رہی ہے، وفاقی حکومت اس بجٹ کو بڑھانے کے لئے فوری اقدامات کرے۔ اسی طرح ضم اضلاع کے عارضی طور پر نقل مکانی کرنے والے لوگوں کی آبادی کاری کے لئے وفاق نے مزید 66 ارب روپے بھی دینے ہیں۔ شراکا کو بتایا گیا کہ ضم اضلاع کے دس سالہ تیز رفتار ترقیاتی پروگرام کے لئے وفاق نے سالانہ 100 ارب فراہم کرنے تھے اور اس مد میں وفاق نے اب تک 600 ارب روپے کے مقابلے صرف 122 ارب روپے فراہم کئے ہیں جبکہ وفاق کی طرف سے اے آئی پی پروگرام کے لئے وفاقی سطح پر کمیٹی کی تشکیل غیر قانونی اقدام ہے۔ وفاقی حکام نے یقین دہانی کرائی کہ ضم اضلاع کے لئے فراہم کی جانے والے فنڈز میں خاطر خواہ اضافہ کرنے کے لئے ترجیحی بنیادوں اقدامات کئے جائیں گے۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعلی علی امین گنڈاپور نے کہا کہ پن بجلی کے منافع، این ایف سی اور ضم اضلاع کے فنڈز سے متعلق صوبائی حکومت کے سارے مطالبات آئینی اور قانونی ہیں، ہم نہ کوئی غیر قانونی مطالبہ کر رہے ہیں نہ ہی کچھ اضافی مانگ رہے ہیں، ان معاملات سے متعلق وفاقی حکومت آئینی اور قانونی تقاضوں کو پورا کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ضم اضلاع کے مخصوص حالات وفاق کے خصوصی توجہ کے متقاضی ہیں، ان علاقوں میں بد امنی کے خاتمے اور لوگوں کو اعتماد دینے کے لئے وہاں پر سماجی اور معاشی شعبوں میں تیز رفتار ترقی ضروری ہے لہذا ضم اضلاع کے لوگوں کو ان کا آئینی حق دینے موجودہ این ایف سی ایوارڈ پر جلد نظرثانی کی جائے۔