News Details

17/10/2020

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کا پرائمری ہیلتھ کیئر سہولیات ( بنیادی مراکز صحت اور رورل ہیلتھ سنٹر ز) کو مضبوط بنانے اور اُن کی یوٹیلائزیشن میں اضافہ کیلئے محکمہ صحت کے تجویز کردہ اصلاحاتی پلان سے اتفاق

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے پرائمری ہیلتھ کیئر سہولیات ( بنیادی مراکز صحت اور رورل ہیلتھ سنٹر ز) کو مضبوط بنانے اور اُن کی یوٹیلائزیشن میں اضافہ کیلئے محکمہ صحت کے تجویز کردہ اصلاحاتی پلان سے اتفاق کرتے ہوئے اس سلسلے میں پرائمری کیئر مینجمنٹ کمیٹیوں کے قیام اور اُن کی مجوزہ تشکیل کی اُصولی منظوری دی ہے جو حتمی منظوری کیلئے صوبائی کابینہ کے آئندہ اجلاس میں پیش کی جائیں گی ۔کمیٹیوں کے قیام سے بنیادی اور دیہی مراکز صحت کے مسائل فوری حل کرنے اور عوام کو معیاری طبی سہولیات کی بلا تعطل فراہمی پر بھر پور توجہ مرکوز کرنے میں مدد ملے گی ۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ پرائمری ہیلتھ کئیر کیلئے علیحدہ مینجمنٹ کمیٹیاں ناگزیر ہیں ، اصل مقصد سروس ڈیلیوری کے نظام کو بہتر بنانا ہے اوراسی مقصد کیلئے بنیادی طبی اداروں کی آپریشنل لاگت کے طور پر سالانہ اربوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں ، ہم نے ہر حال میں ان وسائل کا کارآمد استعمال یقینی بنانا ہے ۔ وہ وزیراعلیٰ ہاﺅس پشاور میں پرائمری ہیلتھ کئیر سسٹم میں اصلاحات کے حوالے سے ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے ۔ خیبرپختونخوا کے وزیرصحت تیمور سلیم جھگڑا، وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی برائے اطلاعات کامران بنگش ، وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری شہاب علی شاہ، سیکرٹری صحت اور دیگر متعلقہ حکام نے اجلاس میں شرکت کی ۔ اجلاس کو پرائمری ہیلتھ کیئر نظام میں اصلاحات اور اس مقصد کیلئے مجوزہ پلان اور مینجمنٹ کمیٹیوں کی تشکیل سمیت دیگر متعلقہ اُمور پر تفصیلی بریفینگ دی گئی ۔ اجلاس کو آگاہ کیا گیا کہ صوبے میں ایک ہزار سے زائد پرائمری ہیلتھ کیئر کے یونٹس اور مراکز ہیں جن کا آپریشنل بجٹ کم و بیش 10 ارب روپے بنتا ہے ۔ صرف بندوبستی اضلاع میں 770 بیسک ہیلتھ یونٹس اور 111 رورل ہیلتھ سنٹرز ہیں۔ ان طبی مراکز کی یوٹیلائزیشن کو بہتر بنانے کیلئے صوبے میں موجود پرائمری ہیلتھ کیئر ماڈل میں تبدیلی اور اصلاحات ناگزیر ہیں۔ اجلاس کو اس مقصد کیلئے پرائمری ہیلتھ کیئر مینجمنٹ ماڈل میں ناگزیر تبدیلیوں اور مجموعی اصلاحاتی پلان پر بھی بریفنگ دی گئی ۔ محکمہ صحت کے تجویز کردہ اصلاحاتی پلان میں بی ایچ یوز اور آر ایچ سیز میں بنیادی انفراسٹرکچر کی اپ گریڈیشن ، طبی آلات کی سٹینڈ رڈڈائزیشن اور ضروری آلات و ادویات کی فراہمی ، سٹاف کی تعیناتی ، حاضری اور نگرانی اورناگزیر نوعیت کے تشخیصی معائنوں سمیت دیگر اقدامات شامل ہیں۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ محکمہ تمام پرائمری ہیلتھ کیئر سہولیات میں تیز رفتار تشخیصی معائنوں کا سسٹم متعارف کرانے کیلئے پالیسی پر بھی کام کر رہا ہے ، جن میں بلڈ گلوکو ز ، ہیموگلوبین ، حمل ، ایچ آئی وی ، ملیریا ، ڈینگی اور ہیپاٹائٹس بی اینڈ سی شامل ہیں ۔اجلاس کو اصلاحاتی پلان کے تحت پرائمری ہیلتھ کیئر کے اداروں میں بوقت ضرورت ہیومن ریسورس کی بھرتی کیلئے حکمت عملی سے بھی آگاہ کیا گیا ۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ مجوزہ اصلاحاتی ماڈل پشاور کی 20 طبی سہولیات (بی ایچ یوز اور آر ایچ سیز )میں بطور پری پائلٹ پراجیکٹ آزمایا گیا ہے جس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے ہیںاور اُن مراکز صحت میں علاج کیلئے آنے والے مریضوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ دیکھا گیا ہے ۔ اجلا س کو آگاہ کیا گیا کہ صرف دو ارب روپے کے تخمینہ لاگت سے پلان پر عمل درآمد کیا جا سکتا ہے جس سے 10 لاکھ تک اضافی مریض بنیادی مراکز صحت اور رورل ہیلتھ سنٹرز سے مستفید ہو سکتے ہیںجس کے نتیجے میں بڑے ہسپتالوں کی او پی ڈی میں مریضوں کا بوجھ بھی خاطر خواہ حد تک کم ہو گا۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ پرائمری ہیلتھ کیئر سہولیات میں 882 پرائمری کیئر مینجمنٹ کمیٹیاں جبکہ سیکنڈری کیئر ہسپتالوں میں 108 ہیلتھ مینجمنٹ کمیٹیاںقائم کی جائیں گی ۔ اجلاس کو مذکورہ کمیٹیوں کی مجوزہ تشکیل ، مقاصد ، ذمہ داریوں ، فنڈز کی فراہمی کے طریقہ کار ، نگرانی کے لائحہ عمل اور عوامی آگاہی کیلئے حکمت عملی پر بھی تفصیلی بریفنگ دی گئی ۔ اجلاس کو مزید بتایا گیا کہ مذکورہ کمیٹیوں کے اُمور اور ذمہ داریوں کی انجام دہی کے مجموعی عمل کی نگرانی ، وسائل کی یوٹیلائزیشن ، ادویات اور آلات کی دستیابی یقینی بنانے جیسے اہم اُمور پر نظر رکھنے کیلئے ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ سٹیئرنگ کمیٹیاں بھی تشکیل دی جائیں گی ۔ وزیراعلیٰ نے پرائمری مینجمنٹ کمیٹیوں کی تشکیل سمیت بنیادی مراکز صحت اور رول ہیلتھ سنٹرز میں اصلاحات کے حوالے سے مجموعی پلان کی اُصولی منظوری دی اور ہدایت کی کہ پلان حتمی منظوری کیلئے کابینہ کے آئندہ اجلاس میں پیش کیا جائے ۔ اُنہوںنے کہا کہ صوبائی حکومت پلان پر عمل درآمد کیلئے بھر پور تعاون یقینی بنائے گی تاکہ پرائمری ہیلتھ کیئر کے نظام کا معیار بلند کیا جا سکے ۔