News Details

13/12/2022

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا کے وفاقی حکومت کے ذمے 189 ارب روپے بقایا ہے

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا کے وفاقی حکومت کے ذمے 189 ارب روپے بقایا ہے، جب سے رجیم چینج سازش کے تحت حکومت اقتدار میں آئی ہے خیبرپختونخوا کیلئے مالی مشکلات پیدا کی جارہی ہیں اور صوبے کا جو حق بنتا ہے وہ روکا جارہا ہے۔ وزیراعلیٰ نے وفاقی حکومت کو تنبیہہ کی ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت کے بقایا جات ادا کردےں ورنہ قومی اسمبلی کے سامنے دھرنا دیا جائے گا اور اس دھرنے میں خیبرپختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کے اراکین بھی شرکت کریں گے۔ پیر کے روز اسلام آباد میں وزیراعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید خان اور آزاد کشمیر، خیبرپختونخوا اورپنجاب کے وزرائے خزانہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعلیٰ محمود خان نے کہا کہ جب سے یہ امپورٹڈ حکومت اقتدار میں آئی ہے خیبرپختونخوا کو دیوار سے لگانے کی کوشش کر رہی ہے اور قدم قدم پر صوبائی حکومت کے لئے مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ سابقہ فاٹا کی حساس نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان اضلاع میں زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے لیکن وفاقی حکومت نے ضم اضلاع کے فنڈز پر بھی کٹ لگا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی اضلاع میں کرنٹ سائیڈ پر 85.9ارب درکار ہیں لیکن 60 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اسی طرح ضم اضلاع میں ترقیاتی منصوبوں کیلئے 55ارب روپے مختص کئے گئے ہیں مگر اب تک صرف 5.5 ارب روپے جاری کئے گئے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے مزید کہا کہ وفاقی بجٹ برائے مالی سال 2022-23میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں عارضی طور پر بے گھر افراد (Temporary Displaced Persons)کیلئے ایک پیسہ بھی مختص نہیں کیا گیا جبکہ مالی سال 2021-22 میں اس مد میں 17 اب روپے مختص تھے جن میں سے صرف 5.1 ارب روپے جاری کیے گئے۔ اس کے علاوہ موجودہ وفاقی حکومت نے ضم اضلاع کے صحت کارڈ کے فنڈز بھی روک دئیے ہیں جوسالانہ 4.5 ارب روپے بنتے ہیں اور اب خیبرپختونخوا حکومت اپنے خزانے سے ضم اضلاع کے صحت کارڈکے اخراجات برداشت کر رہی ہے۔ وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ میں خیبرپختونخوا کا جو حصہ بنتا ہے وہ بھی نہیں دیا جارہا جبکہ پن بجلی کے خالص منافع کی مد میں 61 ارب روپے وفاقی حکومت کے ذمے واجب الادا ہیں اور اس مد میں اب تک ایک پائی بھی ادا نہیں کی گئی۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ موجودہ وفاقی حکومت نے خیبرپختونخوا کے وہ ترقیاتی منصوبے بھی پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام سے نکال دئیے ہیں جو عمران خان کے دور حکومت میں شامل کئے گئے تھے اور جو منصوبے شامل بھی ہےں تو ان کے لئے انتہائی کم رقم مختص کی گئی ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ میں وفاقی حکومت سے پوچھتا ہوں کہ کیا خیبرپختونخوا اس ملک کا حصہ نہیں؟ اگر نہیں ہے تو بھی بتایا جائے اور اگر ہے تو پھر صوبے کا جو حق اور حصہ بنتا ہے وہ ادا کیا جائے، میں صوبے کا منتخب وزیراعلیٰ ہوں اور صوبے کے حقوق کے حصول کیلئے تمام تر آئینی اور قانونی فورمز استعمال کروں گا۔ میں کوئی اضافی رقم نہیں مانگ رہا، صوبے کا حق مانگ رہا ہوں۔ خیبرپختونخوا کے سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے 10 ارب روپے کا اعلان کیا گیا تھا مگر اس مد میں ایک پیسہ تک جاری نہیں کیا گیا۔ صوبہ چلانے کے لیے وفاقی حکومت کسی بینک سے قرضہ لینے کی اجازت بھی نہیں دے رہی۔ وفاقی حکومت کو مالی مسائل حل کرنے کے لیے خطوط بھی لکھے ہیں مگروفاقی حکومت کوئی دلچسپی نہیں لے رہی۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ صوبائی حکومت نے 1300ارب روپے کا بجٹ پیش کیا اور اس میں وہ تمام منصوبے شامل ہیںجن کا عوام کی زندگی پر براہ راست اثر ہے، صوبائی حکومت عوام پر براہ راست سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اگر وفاقی حکومت نے صوبہ کے بقایاجات ادا نہ کیے تو خیبر پختونخوا کے عوام اسلام آباد کا رخ کریں گے اور اپنا حق لے کر رہیں گے۔