News Details

19/10/2023

نگران وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمد اعظم خان نے کہا ہے کہ نگران صوبائی حکومت مالی نظم و ضبط پر سختی سے عمل پیرا ہے

نگران وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمد اعظم خان نے کہا ہے کہ نگران صوبائی حکومت مالی نظم و ضبط پر سختی سے عمل پیرا ہے،حکومت کی کفایت شعاری پالیسی کے تحت مختلف اقدامات کے ذریعے غیر ضروری اخراجات کو کم سے کم کردیا گیا ہے جبکہ نگران صوبائی حکومت دستیاب مالی وسائل کے دانشمندانہ استعمال کو یقینی بنارہی ہے جس کی بدولت صوبے میں نگران دور حکومت میں ابھی تک بینکوں سے کوئی اوور ڈرافٹ نہیں لیا گیا ۔ گزشتہ ادوار میں بہت زیادہ بھرتیوں کی وجہ سے صوبائی محکموں اورسرکاری یونیورسٹیوں میں تنخواہوں اور پنشن کا بجٹ بہت زیادہ بڑھ گیاہے جس کی وجہ سے صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیمی ادارے بھی مالی بحران کا شکار ہیں کیونکہ صوبائی حکومت کے بجٹ کا زیادہ تر حصہ تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگیوں پر خرچ ہو تا ہے ۔ ان خیالات کا اظہار اُنہوںنے جمعرات کے روز نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کے تحت 25 ویں نیشنل سکیورٹی ورکشاپ کے شرکائسے گفتگو کرتے ہوئے کیا جنہوں نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے میجر جنرل رضا اعزادکی قیادت میں اُن سے ملاقات کی ۔ چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا ندیم اسلم چوہدری ، ایڈیشنل چیف سیکرٹریز محمد عابد مجید، سید امتیاز حسین شاہ کے علاوہ سیکرٹری خزانہ عامر سلطان ترین بھی اس موقع پر موجود تھے ۔وزیراعلیٰ نے ورکشاپ کے شرکاءسے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ خطے میں گزشتہ چار دہائیوں سے جاری بد امنی سے خیبرپختونخوا خصوصاً قبائلی اضلاع سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، امن و امان کی مخدوش صورتحال نے یہاں کی معیشت پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں ۔ صوبے کو اب بھی امن و امان کے مسائل کا سامنا ہے۔انہوں نے کہاکہ قبائلی عوام کی محرومیوں کا ازالہ کرنے اور وہاں پر تعمیر و ترقیکیلئے حکومت کی خصوصی توجہ کی ضرورت ہے ،سابقہ فاٹا کے انضمام کے وقت وفاق کی طرف سے کئے گئے وعدے پورے نہیں ہو رہے ۔ اس کے علاوہ این ایف سی ، پن بجلی کے خالص منافع اور تیل و گیس کی رائلٹی کی مد میں صوبے کو پورے فنڈز نہیں مل رہے جس کی وجہ سے صوبائی حکومت کو سخت مالی مشکلات کا سامنا ہے ۔ وفاق سے صوبے کے پورے شیئرز نہ ملنے کی وجہ سے صوبے بالخصوص ضم اضلاع کا ترقیاتی شعبہ متاثر ہو ا ہے ۔متعلقہ حکام کی طرف سے ورکشاپ کے شرکاءکو صوبے کی مجموعی سکیورٹی صورتحال ، مالی و انتظامی اُمور اور ترقیاتی منصوبوں پر تفصیلی بریفینگ دی گئی ۔ شرکاءکو بتایا گیا کہ خیبرپختونخوا میں سمگلنگ ، بھتہ خوری، ہنڈی حوالہ، جعلی دستاویزات سازی سمیت تمام غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف کریک ڈاﺅن جاری ہے اور اس سلسلے میں سول انتظامیہ ، سکیورٹی فورسز ، انٹیلی جنس اداروں اور وفاقی اور صوبائی محکموں کے درمیان کوآرڈنیشن کا ایک موثر نظام قائم کیا گیا ہے ۔ بھتہ خوری اور دہشت گردی سے موثر انداز میں نمٹنے کیلئے کاونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا ہے ۔ صوبہ بھر میں تمام غیر قانونی سرگرمیوں کا قلع قمع کرنے کیلئے منظم انداز میں کاروائیاں کی جارہی ہیں جبکہ ملاکنڈ ڈویژن اور نو ضم شدہ اضلاع میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی پروفائلنگ بھی شروع کر دی گئی ہے۔شرکاءکو بتایا گیا کہ دہشت گردی اور غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بڑی کامیابیاں ملی ہیں۔ اس کے علاوہ نئے ضم اضلاع میں بھی امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے ۔ صوبے کے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے بریفینگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ خیبر پختونخوا کا سالانہ ترقیاتی پروگرام کل 1505 منصوبوں پر مشتمل ہے جبکہ ترقیاتی بجٹ کا حجم 1794 ارب روپے ہے ۔ اسی طرح ضم شدہ اضلاع کا سالانہ ترقیاتی پروگرام 686 منصوبوں پر مشتمل ہے جن کی تخمینہ لاگت897 ارب روپے ہے۔مزید بتایا گیا کہ صوبے کی آمدن کا 94 فیصد دارومدار وفاقی محصولات پر ہے جبکہ 6 فیصد صوبے کی اپنی آمدن ہے ۔ سابقہ قبائلی اضلاع کے انضمام سے صوبے کی آبادی میں اضافہ ہو اہے لیکن این ایف سی میں آبادی کے تناسب سے صوبے کے شیئر میں اضافہ نہیں ہوا۔ انضمام کے بعد این ایف سی میں خیبرپختونخوا کا حصہ 19.6 فیصد بنتا ہے تاہم اس وقت صوبے کو 14.6 فیصد مل رہا ہے ۔ شرکاءکو آگاہ کیا گیا کہ صوبائی حکومت پن بجلی ، زراعت ، معدنیات ، صنعت اور سیاحت کے شعبوں کو ترقی دے کراپنی آمدن کو بڑھانے کیلئے نہ صرف پرعزم ہے بلکہ ایک مربوط حکمت عملی کے تحت اقدامات بھی اُٹھا رہی ہے۔علاوہ ازیں صحت و تعلیم کے شعبے صوبائی حکومت کی ترجیحات میں سرفہرست ہیں اور ان دو شعبوں پر خاطر خواہ وسائل خرچ کئے جارہے ہیں۔ <><><><><><>